میری الفت مدینے سے یونہی نہیں
میرے آقا کا روضہ مدینے میں ہے
میں مدینے کی جانب نہ کیسے کھچوں
میرا دین اور دنیا مدینے میں یے
عرشِ اعظم پہ جس کی بڑی شان ہے
روضہِ مصطفیٰ جس کی پہچان ہے
جس کا ہم پلہ کوئی محلہ نہیں
ایک ایسا محلہ مدینے میں ہے
پھر مجھے موت کا کوئی خطرہ نہ ہو
موت کیا زندگی کی بھی پروا نہ ہو
کاش سرکارا ک بار مجھ سے کہیں
اب تیرا مرنا جینا مدینے میں ہے
سرورِ دو جہاں سے دعا ہے میری
یہ بدو چشمِ تر التجا ہے میری
ان کی فہرست میں میرا بھی نام ہو
جن کا روز آنا جانا مدینے میں ہے
جب نظر سوئے طیبہ روانہ ہوئی
ساتھ دل بھی گیا ساتھ جان بھی گئی
میں “منیر” اب رہوں گا یہاں کس لئے
میرا سارا اثاثہ مدینے میں ہے
منیر واجد